ہیر رانجھے کی داستان عشق پوری دنیا کے علاقوں گا گا کر سنائی جاتی تھی۔ یہ داستان اگر سیاسی بغاوت نہ ہوتی تو اتنی مشہوری اور اتنا بلند مرتبہ بھی نہ رکھتی۔
ہیر اور رانجھادونوں نے اپنے قبائلی پولیٹیکل کلچر ،اکنامکس اور ہندو مذہب کے خلاف بغاوت کردی،آج کے پنجاب کا شہر جھنگ پرانے زمانے میں ایک بڑا ملک تھا،ہیر ایک قبائلی بادشاہ کی بیٹی تھی اور رانجھا بھی قبائلی بادشاہ کا بیٹا تھا،دونوں نے پرانی ذات پات کے طبقاتی ہندو مذہب کے خلاف اپنے دین کا نام عشق رکھاان دونوں کے قبیلوں کے درمیان کئی سوسال سیاسی جنگ چلتی رہی۔
ہیر اور رانجھے کی کہانی کو ان پڑھ اور بے شعور فرقہ پرست لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رانجھے کو ایک خوبصورت لڑکی ہیر نظر آگئی جسکو اس نے پھنسالیا اور اس لڑکی نے اپنے باپ دادا کے خاندانی قانون اور رسم ورواج کے خلاف اپنی بھینسیں چارنے والے نوکر رانجھے کے ساتھ ناجائزتعلقات قائم کرلئے اور رانجھا اس کو کو اغوا کر کے لے جارہا تھا اس لئے ہیر کے بھائیوں نے اپنے باپ کے حکم پر دونوں کا تعاقب کیا اور ان کو پکڑ کر قتل کر دیا۔ لیکن یہ سب جھوٹ ہے ۔
میں نے ہیر رانجھے کی داستان کو پہلی بار وارث شاہ کی لکھی ہوئی کتاب میں پڑھا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ تو ایک سیاسی بغاوت ہے ۔ یہاں یہ حقیقت بھی کھول دیتا ہوں کہ میں نے یہ کتاب : ہیر وارث شاہ: 1959-60 میں اپنے گاں چک نمبر 58 تحصیل جڑانوالہ ضلع لائل پور '' فیصل آباد '' میں ایک بزرگ دانشور نواب موچی سے پڑھی ۔
ایسے بزرگوں کو یہ بڑا دکھ تھا کہ ہمارے سکولوں میں پنجابی زبان نہیں پڑھائی جاتی تھی اور سکولوں کے نصابوں میں وارث شاہ اور بلھے شاہ جیسے عالم فاضل لوگ بھی نہیں پڑھائے جاتے تھے جو عشق کو اسی طرح اپنا دین سمجھتے تھے جس طرح رانجھا اور ہیر سمجھتے تھے ۔
اس لئے فرقہ پرست مولوی اور حکمران طبقے ان دانشور وں کو کافر سمجھتے تھے اور فتوے لگاتے تھے کہ جب رانجھا اور ہیر زندہ تھے اس وقت تو ہمارے پیغمبر پیدا ہی نہیں ہوئے تھے اس لئے وارث شاہ اور بلھے شاہ جیسے لوگ تو کا فر ہیں۔
واضح رہے کہ ان فلسفی شاعروں کے بارے میں زیادہ علم مجھے لاہور میں آ کر کلچر کے فلاسفر اور شاعر نجم حسین سید کی محفلوں میں شریک ہونے سے ملا۔ میرے مطالعات کے مطابق داستان ہیر رانجھا 2500 سال کے قریب پرانی ہے ۔اس داستان کو لکھنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جو پچھلی25 صدیوں میں اس کو لکھتے رہے ۔
اور یہ انگریزی ، اردو، فارسی ، پنجابی ، چینی ، یونانی زبانوں میں بھی اور یہ متعدد دوسری زبانوں میں بھی لکھی گئی ۔ وارث شاہ نے اس کا جو نسخہ تخلیق کیا اس کو مرتب کرنے ولوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے جن میں سے مجھے شریف صابر صاحب کا مرتب کدہ نسخہ زیادہ پسند آیا ۔
میں نے اسی کو بنیاد بنایا ہے۔ وارث شاہ کے اس کلام کے ترجمے یونیسکو کی لائبریریوں میں بھی منظور کر کے رکھے گئے اور باقی ملکوں بھی ۔ سید شاہد حسین زیدی نے اس کا جو نسخہ مرتب کیا اسمیں انہوں نے وارث شاہ کے پنجابی شعروں کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔
ہیر اور رانجھا کی قانونی بغاوت کی داستان میں آج لکھ رہا ہوں تو لڑکیوں کی شادیوں کی قانونی بغاوتوں کی ایک مختلف رپورٹ میرے سامنے پڑی ہے جو کہ پچھلے چھ سال میں راولپنڈی میں3900 لڑکیوں نے طلاقیں لینے کے لئے فیملی کورٹوں میں مقدے دائر کئے ہیں ۔ ان لڑکیوںنے جو شادیاں خود کیں یا جو ان کے والدین نے کروائیں وہ ان سے نبھائی نہیں جا سکیں ۔
یوں پتہ چلتا ہے طلاقیں مانگنے والی عورتوں کا اپنے مردوں کے ساتھ ایسے عشق والا رشتہ نہیں بن سکا جیسا ہیر اور رانجھے کے درمیا ان قائم ہو گیا تھا کیوں کہ رانجھے اور ہیر کی شرائط بڑی سخت ہیں جو وارث شاہ نے لکھی ہیں ؛ ان میں سے پہلی تو انہوں نے اپنی کتا ب کے پہلے شعر کے پہلے ہی مصرعے میں لکھ دی جو یہ ہے کہ یہ کتاب پنجابی شاعری میں ہے اور اس کی موسیقی کی طرز کلاسیکل راگ بھیرویں میں ہے جو دن رات کے کسی بھی وقت گایا جاسکتا ہے حالانکہ باقی راگوں کو گانے کے وقت مخصوص ہوتے ہیں ۔
یہ پنجابی شعر یوں لکھا گیا ہے:۔ اول حمد خد ا د ا ورد کیجئے عشق کیتا سو جگ دا مول میاں پہلے آپ ہے رب نے عشق کیتا معشوق ہے نبی رسول میاں اس کی اردو نثر میں تشریح میں نے یوںکی ہے: ۔ اول حمد خد اکا درد کیجئے کہ اس نے پورے جگ کے وجود کی روح رواں عشق کو بنایا تھا اور سب سے پہلے خدا نے خو د نبی کریم حضرت محمد سے عشق کیا اس کے بعد دنیا بنائی ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دنیا بنانے سے پہلے خدا نے حضرت محمد کا وجود تخلیق کر لیا تھا۔
اس کا مزید مطلب یہ نکلا کہ ہیر اور رانجھا کے وجود میں آنے سے پہلے ہی عشق کا نظریہ حیات تخلیق ہو چکا تھا جس کو ہیر اور رانجھے نیں اختیا ر کیا اور باقی تمام مذاہب کی نفی کر دی۔ یہاں یہ بھی واضح کر دینا چاہیے کہ اسلام نازل کرنے سے پہلے خدا ایک لاکھ چوبیس ہزار یا اس سے بھی زائد پیغمبر نازل کر چکا تھا۔
تاہم اس بات کی تخلیق نہیں ہو سکی کہ ہیر رانجھے کی جسمانی زندگی کون سے پیغمبر کے دور میں قائم تھی۔ وارث شاہ کی لکھی ہوئی کتاب میں رانجھے کا تعارف یہ ہے کہ پنجاب کے اندر بہشت جیسا وہ جاٹ قبیلے کا گائوں میری نظر میں سٹیٹ تھا جہاں جاٹ قبیلے کا نام ہی رانجھا ہے۔ قبیلہ راج کرتا تھا ، اسی رانجھا قبیلہ کو کھرل جاٹ بھی لکھا گیا ہے اور یہ رانجھا جو ہیرو ہے جس کا اصل نام دھیدو رانجھا تھا۔
اس کے باپ کا نام موجو جٹ ہے جو اس قبیلے کی سرکار کا سربراہ میری نظر میں بادشاہ ہے کیونکہ دوسرے بھائیوں سے وہ بڑا تھا اور قبیلے کی سرکار کے ا ختیارات اس کے پاس ہوتے تھے جو سب بہن بھائیوں سے بڑا ہوتا تھا۔
اس کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن میں سے دھیدو رانجھا سب سے چھوٹا تھا اور کنوارا تھا باقی سب شادی شدہ تھے اور یہ چھوٹا بیٹا باپ کی نظر میں سب سے لاڈلا تھا۔ جبکہ دوسرے سب بھائی اس سے اس لئے حسد کرتے تھے کہان کی بیویاں یہ اس کے خلاف یہ چغلیاں کرتی رہتی تھیں کہ دھیدو رانھا جوانی کی مستیوں کی عیش اڑاتا ہے اور کھیتی باڑی کر کے پھل اور اناج اگانے بھینسیں چارنے جیسے کام نہیں کرتا جو دوسرے بھائی کرتے ہیں اور یہ ان کی کمائی اس لئے کھاتا ہے کہ اس کے باپ نے لاڈ کر کر کے اسے بگاڑ دیا ہے اور یہ بگڑا ہوا جوان خوبصورت لاچے کرتے پہن کر گلیوںاور باغوں میں لڑکیوں کو چھیڑتا پھرتا ہے۔
بنسری بجاتا ہے ، گانے گاتا ہے، آوارہ گردی کرتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اچانک موجو جٹ فوت ہو گیا تو بھا بیوں نے دھیدو رانجھے کو روٹی دینے سے بھی انکار کر دیا اور اپنے خاوندوں سے یہ مطالبہ ضد لگا کر منوا لیا کہ اس چھوٹے بھائی رانجھے کی زرعی زمین اور رہائش والے مکان کا حصہ الگ کر دو اس لئے اس کے بھائیوں نے زمین کے حصے الگ کرنے کے لئے گائوں کے پنچوں کو اور قاضی کو جمع کر کے زمین کی پیمائش کروائی اور ان کو رشوت دے کر فیصلہ یہ کروایا کہ اس میں زرعی زمیں کا جو بنجر حصہ تھا وہ دھیدو کے نام کروادیاکیونکہ ان کا موئقف یہ تھا کہ جس زمین پر فصلیں اگتی ہیں اس پر اس دھیدو رانجھے نے کبھی کوئی کام نہیں کیا اس لئے یہ خود ہل چلائے اور بنجر زمین کو خود کاشت کرے ۔
اس وجہ سے اس کے اور بھابیوں کے درمیان لڑائی جھگڑا شروع ہو گیا۔ یہ سارا مسئلہ چونکہ ملکیت بازی کا تھا اس لئے میں اس کو سو فیصد سیاسی جنگ سمجھتا ہوں ۔اس مسئلہ کو حل بھی سیاسی پنچائت نے رشوت لے کر کیا ۔ موجو جٹ کے مرنے کے بعد موجو کا بڑا بیٹا اس کی جگہ بادشاہی کا مالک بھی بن گیا۔ اور ان بھائیوں نے گالی گلوچ کرنے وا لا ایک پھکڑی طنز نگارچھوٹے بھائی کے پیچھے لگا دیا۔
اس صورت حال میں وارث شاہ نے بہترین پنجابی شعر لکھے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے کہ جو چھوکرے بدن کو جھاڑ کے آئینے میں اپنے سارے بدن کو دیکھتے رہتے ہیں وہ ہل چلانے کاڈھنگ کیسے جان سکتے ہیں ۔ اپنے سر کے لمبے لمبے بالوں کو دہی لگا کر جو پالتے ہیں ان کے لئے کوئی عورت چاہت کیسے رکھ سکتی ہے۔
جو لڑکا زمین کے لئے جھگڑے کرتا اوہ ہمارے ساتھ کوئی رشتے آخر تک نہیں نبھائے گا۔ یہ لڑکا دن بھر بنسری بجاتا اور رات کو گاتا رہتاہے اس لئے بس اس کا جیون چند دن کا مہمان ہے۔ زمین کی تقسیم کے بعد رانجھا اس بنجر زمین میں ہل چلا تا ہوا تھک گیا اور ہل چلانے والے بیلوں کی گردنوں پر ڈالی ہوئی پنجالی کی ارلیاں اتار کر بیلوں کو ساتھ لا کر درخت کی چھاں تلے بیٹھ گیا۔ ایک بھابی نے اس کے سامنے بھتا دوپہر کا کھانا لا کر رکھ دیا تو اس نے بھابھی کو دکھایا کہ اس کے ہا تھوں اور پیروں کی تلیوں پر چھالے پڑگئے تھے ۔
اس نے بھابی سے کہا ہمیں یہ کاشتکاری کا کام بھاتا ہی نہیں تو بھابھی نے کہا کہ باپ کے لاڈلے اور ماں کے پیارے ہونے کی وجہ سے یہ کام تو نے کرنا ہی نہیں سیکھا۔ بھابھی کے جواب میں رانجھے نے کہا کہ دشمن بھابیوں نے ہم سگے بھائیوں کے درمیان
وچھوڑا ڈال دیا۔ میری روح کو دلگیر کر کے گلاب کا پھول توڑ ڈالا ہے۔ رانجھے کے جواب میں بھابھی نے کہا تو دودھ چاول کھا کھا کر اکڑتا رہا اور پیٹ بھر کر کھانے کی مستیاں دکھاتا رہا ۔ ہمیں تو شریکے کی عورتیں یہ طعنے دیتی رہی ہیں کہ تم اپنے دیور کے ساتھ نہال رہ رہ کر عیش کرتی ہو اور رانجھے کے ساتھ گھی شکر ہو کر رہتی ہو اور ہمیں دل کا بھید نہیں بتاتیں۔
تو ہمیں کلنک کا ٹیکہ بن کر لگ گیا ہے جب کہ باقی سب عورتیں سکھی بس رہی ہیں۔ تو وہ چھیل چھبیلا لونڈا ہے جس کو دیکھ کر عورتیں یوں گر گر پڑتی ہیں جیسے مکھیاں شہد میں پھنس جاتی ہیں۔ تم اس گھر سے نکل گئے تو بھوکے مر جا گے اور ساری مستیا ں بھی بھول جا گے ۔ بھابھی کے طعنوں کے جواب میں رانجھے نے کہا عورتیں اتنی چالاک چاتر باز ہوتی ہیں کہ مروں کو ذبح ہونے والے چھترے بنا دیتی ہیں۔
رسیوں کے سانپ بنا دیتی ہو ؛ راجہ بھوج کی ھکومت بھی عورتوں نے اجاڑی تھی اور اس کو اپنے لئے ایسا ٹٹو بنا لیا تھا کہ اس کے منہ میں لگا م ڈال کر اس پر سواری کرنے لگ گئی تھیں۔ لنکا کے راجہ راون پر عورتوں کے کارے ایسے چل گئے تھے کہ اس نے ان کی
خاطر کنکا کو لٹوا کر گرد مٹی بنا ڈالا تھا۔ تم ایسی ہریاری ہوتی کہ اپنے یارانے ایک دوسرے کی دشمن کورو اور پانڈو قو موں کے مردوں کے ساتھ جوڑ نے اور توڑنے کے ذریعے تم عورتوں نے ذرہ ذرہ کی باتوں سے اور ان کی نسلیں گال ڈالی تھیں۔
رانجھے اور اس کی بھابھی کے درمان جو ڈائیلاگ وارث شاہ نے بنائے ہیں وہ سیاست اور کلچر کے طعنوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جب کوئی مرد یا عورت یہ بات کرتے ہیں کہ وہ سیاست میں حصہ نہیں لیتے تو در اصل وہ موجود حکومت کی مخالفت کرنے سے دور بھاگ کر حکومت نواز سیاست ہی کرتے ہیں اور یہ کام سب سے زیادہ عورتیں کرتی ہیں۔
وارث شاہ کی کتاب سے جو منا ظر سامنے آتے ہیں ان میں سے پہلا ہی یہ ہے کہ رانجھے کو جائیداد کا ناکارہ بنجر حصہ دے کر گھر سے بیگانہ کر دیا گیا اور بھابیوں کے ساتھ بھائیوں کے گٹھ جوڑ کی بنیاد صرف جائیداد پر قبضہ کرنے کا لالچ ہے اور سارے خاندانی رشتے بھی اسی لالچ پر چلتے ہیں۔ سیاست بھی اسی لالچ پر چلتی ہے ۔کلچر بھی اسی لالچی اکانومی پر چلتا ہے۔
اسکے علاوہ کوئی ساک سنگ ، یا انگ ساک نہیں ہوتا۔ اسی لالچ میں بھابیوں نے رانجھے کو یہ گالی دی کہ تو جو ہمیں گالیاں اور طعنے دیتا ہے ، اگر بڑا ہی بہادر اور با صفات ہے تو دشن قبیلے سیال جاٹ کے سردار کی بیٹی ہیر کو بیا ہ کر لے آ جو مستقبل میں اس قبیلے کی سرداری سنبھالے گی ۔
کل تیرا جوبن باسی ہو جائیگا تو اسمیں کیا مزہ باقی رہ جائیگا۔ اس طعنے بازی سے تنگ آ کر رانجھا اپنا گھر چھوڑ کر سیال جاٹ قبیلے کی ہیر کی بستی کی طرف روانہ ہو گیا۔ اور اس تخت ہزارہ دیس کو چھوڑ گیا جو اس کے باپ کی بادشاہی تھی۔ وارث شاہ نے رانجھے کی اس روانگی جو مصرعہ لکھا اس میں لفظ یہ استعمال کئے ہیں ان میں کہا ہے کہ رانجھا جب اس دن بس ایک چادر کی بوکل لپیٹ کر نکل گیا تھا تو وارث شاہ جیسا ہی ہو گیا تھا۔
بس اس کے پاس اسکی ساتھی بس ایک ونجھلی یعنی بنسری کی ہی ایک صورت تھی ۔ رانجھے کے خود ہی وطن چھوڑ جانی کی خبر پرے تخت ہزارے میں پھیل گئی اور لوگوں نے جا کر اس کے بھائیوں کو بھی سنائی تو ان کو بھی اس پر ترس آگیا۔ بھائیوں نے رانجھے کا راستہ روکا اور اس کی منتیں بھی کیں کہ وہ اپنی بھابیوں کا گناہ بخش دے اور واپس آجائے ۔
اور یہ بھی کہا کہ آئیند وہ اس کے غلام اور بھابیاں اس کی لونڈیاں بن کر رہیں گی۔ لیکن رانجھے نے ان کو بھی جو جواب دیا وہ بھی سیاسی ہے ؛ اس جواب میں بھی وہ کہتا ہے کہ تم بھائیوں نے جب تم نے اپنا دیس ہی تقسیم کر لیا ہے تو میرے ساتھ کوئی رشتہ باقی نہیں رکھا۔ اس وقت بھابیوں نے بھی اس سے معافیاں مانگیں لیکن وہ گھر چھوڑ گیا ۔
میر ا خیال ہے اس کے بعد وارث شاہ نے اپنے آپ کو رانجھا بنا لیا اور یہ لکھنا شروع کر دیا کہ رانجھا مسجد میں رات گذارنے چلا گیا اووہاں ونجھلی بجاتا رہا جس کی سریلی آواز سن کر سارے گائوں کے لو گ اس کے گرد جمع ہو گئے لیکن مسجد کے ملاں نے آ کر رانجھے پر فتوی لگا دیا کہ مسجد میں بنسری بجانا حرام ہے۔
وارث شاہ نے لکھا ہے کہ ملاں نے تو یہ کام کرنا ہی تھا کیونکہ وہ تو ہوتا ہی جھگڑے فساد کی گٹھڑی ہے۔ رانجھے کے خلاف اسی ملاں کے جو بول وارث شاہ نے لکھے ہیں ان کا اردو ترجمہ سید شاہد حسین زیدی نے اس طرح کیا ہے کہ جاٹ کو دہقاں لکھ دیا لیکن
جاٹ یا جٹ ذات تو جاگیردار بھی ہو سکتی ہے لازمی نہیں کہ مزارعہ جاٹ ہی ہو اس لئے میں نے یوں سمجھا ہے کہ اردو چونکہ بے وفا ؛ بے ٹھکانہ ایسی اولاد جیسی زبان ہے جس کے ماں باپ کی تعداد ہی ان گنت ہوتی ہے اس لئے زیدی صاحب نے یہ شرارت کی ہو گی۔
بہر حال میں وارث شاہ کے کلام میں صرف کے کی جگہ دے اور کا کی جگہ دا اور کی کی جگہ دی لگا کر اس کا ترجمہ کر رہا ہوں جو نثر میں ہے پنجابی شعر کی نہج پر اردو بن نہیں سکتی کیونکہ اردو زبان کی دیسی جڑیں ہی موجود نہیں ہیں :۔ ملاںنیرانجھے سے کہا کہ اے نامعقول جاٹ تو ایک مفروضہ بنا کر اور اس پر پردہ ڈال کر مسجد میں رات گذار لے اور صبح ہوتے ہی سر کو چھپا کر اور کوئی پردہ جسم پر لپیٹ کر یہاں سے باہر نکل جانا۔ یہ مسجد اللہ کا گھر ہے اس کے ساتھ کوئی جھگڑا نہ اٹھانا۔
اس کے ساتھ ہی وارث شاہ نے لکھا ہے کہ خدا خانوں کو یہ ملاں بلائیں بن کر چمٹے ہوئے ہیں۔ اگلی صبح سورج نکنے سے پہلے ہی رانجھا مسجد سے نکل گیا اور اپنی بھابی سے جو طعنہ سن کر آیا تھا اس کے جواب میں دشمن قبیلے کی شہزادی ہیر کے گائوں تک
پہنچنے کے لئے دریائے چناب کے کنارے پر پہنچ گیاجہاں وارث شاہ نے بیڑیاں چلانے والے ملاح لڈن اور رانجھے کامکالمہ لکھا کہ رانجھا اپنے بھائیوں کے ساتھ لڑائی جگھڑے سے خالی ہاتھ آگیا تھا اس لئے لڈن اسے طعنے دیتا رہا اور بیڑی پر بٹھا کر دریا پار کروانے سے انکار کرتا رہا۔
رانجھے نے آخر دریائے چناب کے کنارے بیٹھ کر اپنی ونجھلی بجانے کا سریلا جادو برپا کردیا جس کے اثر میں آکر دریا کنارے کی بستیوں کے مرد عورتیں سب رانجھے کے گرد جمع ہو گئے۔ عورتوں نے اس کی ٹانگوں کی مٹھیاں بھرنی شروع کردیں ۔تو رانجھے نیں بھی پیر اٹھا کر ڈن ملاح کی دونوں کے سینے پر ٹکا دئیے ۔
یہ دکھ لڈن ملاح نے شور مچا دیا کہ لوگو بھاگو آ اس مرد نے عورتوں کے دل موہ لئے ہیں ہی تو پتہ نہیں کون بلا ہے کہ عورتوں کو بھگا کر لے جائے گا۔اور اس نے رانجھے کا منت ترلہ کر کے اسے بیڑی پر بٹھایا اور دریا کے پار لگا دیا ۔ دریا کے پار پہنچ کر رانجھے نے دیکھا کہ کہ وہاں دریا کے اندر ہی ایک ایسی بیڑی کھڑی ہے جس کے اوپر اس باغ بہا رترنجن کے بادشاہ چوچک جٹ سیال ترنجن کی بیٹی شہزادی ہیر نے اپنا پلنگ بچھایا ہوا ہے جس پر اس وقت بیٹھتی ہے جب اپنی ساٹھ سہیلیوں کے ساتھ سیر کرنے آتی ہے۔
یہ ایسے شاعرانہ مناظر ہیں جن کو وارث شاہ کی پنجابی شاعری میں پڑھیں تو قاریئین کو شعور اورسرور کے خزانے ملتے ہیں۔ سیاست اس میں رانجھے کی یہ ہے کہ وہ دریا کے پار آکر اپنی ہی مرضی سے ہیر کے پلنگ پر چڑھ گیا۔ جنگل بیلے کے لوگ اس کے حسن وجرائت اور فنکاری کو دیکھ کر اس کے گرد جمع ہو گئے یہ خبر چرواہواہوں نے جا کر بستیوں میں بھی پھیلا دی اور ہیر جٹی کو بھی بتایا کہ تیرے پلنگ پر ای خوبصورت ہیرو ونجھلی بجاتا ہے اور اور گا رہا ہے جس نے اس کی سیج ناس ماردیا ہے۔
یہ سن کر ہیر بڑے غصے غرور اور جوش و جذبے سے اپنی ساٹھ سہیلیوں کو ساتھ لے کر دریا میں بیڑی پر بچھائے ہوئے پلنگ کی طرف چلتی ہے ۔ہیر کے بادشاہی لباس ، حسن اور شانو شوکت پر وارث شاہ نے چالیس کے قریب مصرعے لکھ ڈالے ہیں۔ دریا کے کنارے پہنچ کر ہیر نے اپنے پلنگ پر سوئے ہئے ہوئے رانجھے کو دیکھنے سے پہلے ہی لڈن ملاح کو بلوایا اور اسکو بید لگوادیئے۔ جس پر ملاح بھی چیخ اٹھا کہ یہ خوبرو جوان اپنے عشق کے زور پر تیری سیج پر آن سویا ہوگا۔
وارث شاہ کا پنجابی مصرعہ یہاں میں لکھے بغیر رہ نہیں سکتا جس سے یوں لگتا ہے کہ لڈن ملاح بھی واث شاہ کی اپنی داستان عشق سے واقف تھا۔وارث شاہ نے لکھا ہے : چنچر ہاریئے رب توں ڈر ہیرے اگے کسے نہ ایہہ طوفان کیتے ایس عشق دے نشے نیں نڈھیئے نی وارث شاہ ہوری حیران کیتے وارث شاہ کے شعروں کے مطابق تو رانجھا تو ایک باتد بیر جوان لگتا ہے جس کو ہیر نے جھڑک مار کر نیند سے جگا تو دیا لیکن اس نے ہیر کو دیکھتے ہی اسے واہ سجن کہہ کر پکارا تو ہیر اس پر قربان ہو گئی۔
اس کے بعد ہیر اور رانجھے کے مکالمے پر وارث شاہ نے ایک سو کے قریب مصرعے لکھ ڈالے ہیں۔ اس مکالمے میں ہی یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دونوں کے خاندان آپس میں تاریخی دشمن ہیں اس لئے دونوں نے اپنے والدین کی دشمنی کے خلاف ایک مشترکہ فیملی سسٹم بنانا ہے اور اسکی بنیاد عشق پر رکھنی ہے۔اور عشق کا مطلب صرف لڑکے اور لڑکی کے جنسی تعلق کا قائم ہو جانا نہیں ہوتا بلکہ پورے سماج کے سیاسی معاشی اور کلچرل قوانین کو تبدیل کرکے ایسے قوانین اور رشتے بنانا ہوتا ہے جو ذاتی معاشی ملکیت کی بنیاد پر قائم نہ ہوں۔
لیکن میرے ذہن میں یہ شک پیدا ہو گیا کہ آجکل توعشق بھی پیسہ کمانے کے دھندوں کے ماتحت چلتاہے اس لئے میں نے اپنے شک کی تصدیق یا تردید کرنے کے لئے مختلف لوگوں سے سوال کرنا شروع کر دیا کہ سب سے معتبر عشق کا رشتہ کیسا ہوتا ہے؟ س سوال کا پہلا جواب جو مجھے لاہور شہر کے تعلیمی اداروں ، بازاروں ، کوٹھیوں ، وکیلوں کے اڈوں، مذہبی واعظوںاور سیاسی عہدے داروں کے ٹھکانوں میں درمیانے طبقے کے 100 عورتوں مردوں میں سے 91 لوگوں نے پچھلے تین مہینوں میں دیا تھا اسکے لفظ تو مختلف استعمال کئے گئے لیکن ان سب لفظوں اور جملوں سے مطلب صرف یہی نکلتا ہے کہ سب سے مفید رشتہ خواہ عورت کے ساتھ ہو خواہ مرد کے ساتھ وہی ہوتا ہے جس سے پیسہ زیادہ ملتا ہو ، جائیداد زیادہ بنتی ہو ۔
مجھے یہ جواب سن کر یہ محسوس ہوتاہے کہ آجکل کاروباری زندگی کے جوش میں عشق کو بھی ایک ایڈورٹائنگ کمپنی بنا دیا گیا اور یہ بھی ریموٹ کنٹرولر سے چلنے والے کمپیوٹر کی طرح چلتا ہے ۔
ماضی میں عاشقی کا اشارہ آنکھ مار کر کیا جاتاتھاآجکل آنکھ مارنے کا کام ریموٹ کنٹرولر کے پاس ہے ، لو لیٹر کا کام موبائل فون کے پاس ہے اور دیدار ودرشن کا کام ٹی وی چینل پر ہے لیکن ای سب چیزیں پراپرٹی کی ڈیفی نیشن میں آتی ہیں جبکہ میری پرانی اور نئی تھیوری میں عشق پراپرٹی کی نفی کر دیتا ہے۔
میں جہا ں کہیں بھی سیاست کے حوالے سے یہ پوچھتا تھا کہ انسانی حقوق کے لئے سب سے مفید رشتہ کس بندے یا تنظیم سے قائم کرنا چاہیے تو زیادتر جواب یہ ملتا ہے کہ جس سے اقتدار میں حصہ ملتا ہو۔کلچر کے عنوان میں میں چونکہ عشق کا لفظ ضرور استعمال کرتا رہا اس لئے اس لفظ والے سوال کا جواب چند شاعروں ادیبوں نے ہی دیا جو مجھے تین مقامات پر ملتے رہے ۔ ان میں سے دو مقامات تو وہ ہیں جہاں میں نے ڈھول کی تال پر دھمال ناچنے کے لئے جانا ہی ہوتا ہے ۔
اس میں سے ایک تو بلھے شاہ کا مزار ہے دوسرا مادھو لعل حسین شاہ حسین کا مزار ہے اور تیسرا مقام نجم حسین سید کی محفل مطالعہ ہے۔ ان مقات پر جائیداد کی پیسے کی بات نہیں ہوتی ۔اسوقت جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو نجم حسین سید کی اس پنجابی نظم کے مصرعے یاد آرہے ہیں جو انہوں انسانی رشتوں کی کہانی کے ٹوٹ جانے پر لکھی ہے ۔
صرف دو مصرعے قوٹ کر رہا ہوں : کیہڑا آن تروڑے جپھے مالکیاں دے کون کہانی توڑے نویاں عشقاں دی ہیر اور رانجھے کے خاندانوں کی جنگ بھی ذاتی ملکیت پر ہوتی تھی جبکہ ان دونوں کے عشق نے یہ راستہ بتایا کہ ذاتی ملکیت کا قبضہ گروپ توڑا جائے اور مشترکہ ملکیت کا سیسی اور معاشی سسٹم بنایا جائے۔
لیکن اس تصور عشق کے بہت سے شاعروں نے معانی اپنی اپنی آئیدیالوجی کی بنیاد پر نکالے ہیں ۔ ہمارے پاکستانی پنجاب میں پاکستان بننے سے 187 سال پہلے وارث شاہ نے اس کتاب کو لکھا تھا۔ وارث شاہ آبائی گاں جنڈیالہ شیر خان ہے جو آج کے ضلع شیخوپورہ میں موجود ہے جس میں وارث شاہ کا مزار بھی ہے ۔
وارث شاہ کو ملامتی صوفی کہہ کر پکارہ جاتا ہے۔انہوں نے رانجھے اور ہیر کے عشق کی تشریح اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر کی ہیارچہ وارث شاہ کامل مسلمان ہیں اور رانجھا اور ہیر کی زندگی وارث شاہ کی زندگی سے صدیوں پہلے کی ہے لیکن میری نظر میں ہیر اور رانجھے کی زندگی ان زمانوں کی ہے جب ہندو مذہب کے ذات پات سسٹم رائج نہیں ہوا تھا جبکہ لاکھوں نبی دنیا میں آ چکے تھے۔
وارث شاہ ان تمام انبیا ئے کرام پر ایمان رکھنے والے ملامتی صوفی ہیں جو ملاں کی فرقہ پرستی کو گالی دیکر لکھتے تھے۔ وارث شاہ نے ہیر رانجھے کے عشق کی سیاسی آئیڈیالوجی کو بھی ان پرانے انبیائے کرام کی دینی تعلیمات کے حوالے پرکھا ہو گا۔ میری نظر میں وہ دور انڈیا کاقبائلی دور ہو گا جس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کس قبیلے کا مذہب کونسا تھا لیکن ہیر رانجھے کی قبروں پر جانے والے لوگوں کی تعداد بے شمار تھی اسی لئے ان کی داستان عشق پوری دنیا کے علاقوں گا گا کر سنائی جاتی تھی۔ یہ داستان اگر سیاسی بغاوت نہ ہوتی تو اتنی مشہوری اور اتنا بلند مرتبہ بھی نہ رکھتی۔
تحریر: زبیر رانا
Read more at http://www.geoworldonline.com/Urdu/articleDetail.php?aID=592